Friday, 27 November 2020

ملی نغمہ

 


 آنسو نہیں اے قوم میری ، ہمت کی ہمیں ضرورت ہے 

"قائد کا ہے فرمان یہی" اتحاد میں قوم کی طاقت ہے


جو وقت ہم پر چھایا ہے کڑا 

وہ وقت سدا نہیں رکنا ہے

ہمیں  اپنے  زورِ  بازو  سے

اس ملک کی طاقت بننا ہے


آنسو نہیں اے قوم میری ، ہمت کی ہمیں ضرورت ہے

"قائد کا ہے فرمان یہی" اتحاد میں قوم کی طاقت ہے،


دشمن  کے  سازشی  ارادے

سب خاک میں مل جائیں گے

جیالے پاک دھرتی کے جب

باطل  سے  ٹکرائیں  گے


آنسو نہیں اے قوم میری ، ہمت کی ہمیں ضرورت ہے

"قائد کا ہے فرمان یہی" اتحاد میں قوم کی طاقت ہے،


امن  کا  پیغام  ہے  ہم 

امن کے دیپ جائیں گے

اپنی  پیاری  دھرتی  سے

ہم  عہدِ وفا  نبھائیں  گے


آنسو نہیں اے قوم میری ، ہمت کی ہمیں ضرورت ہے

"قائد کا ہے فرمان یہی "اتحاد میں قوم کی طاقت ہے

 شاعرہ: فاخرہ تبسم

بچپن



اے وقت کوئی ایسا چراغ لا دے 

جو  کھویا    ہوا  بچپن     لوٹا     دے   


مڑ کر بھی نہ دیکھوں رنگِ شباب کو 

ایک بار چمکتے ہوے دنوں کو صدا دے


مجھ کو لے جا اڑے پھر اُس دیس میں 

مولا  ہوا  کوئی  ایسی    چلا    دے  


نہ سوچ ، نہ خواب ، نہ فکرِ معاش تھی

وہ لا ابالی سے وقت کو پھر سے بُلا دے


جس کے سُروں میں ہو سُرورِ زندگی

بھٹکے ہوۓ بچپن کا کوئ گیت سنا دے


ہنستے تھے تو ہنسی میں تھے رنگ بکھرتے 

کوئ پھر سےساز کے ان تاروں ںکو بجا دے

بوسیدہ میرامکان مجھےمنظور ہےلیکن

مولا  میرا جنت  میں اک محل بنا  دے

                      

Wednesday, 25 November 2020

بے نشاں ہو گئے ہیں



اے آنے والے 

وقت کے لوگو

تم سےپہلے جو گزرےتھے 

تمھاری طرح ناز بہت تھا

حسین ، مغرور ، طاقتور

بے مثال اور با کمال بھی

دانا ، محقق ، دانشور

بادشاہ،وزیر،امیر سب ہی

وہی  لڑی  جو  چلی  آئ

ہے  ابد  سے

سب  اپنے  اپنے

  حصّے کا لیے

اپنا اپنا وقت جیئے

اور  چل  دیے

تم کسی زعم میں نہ 

رہنا

کہ وقت تیزی سے

 گزر جاتا ہے

دیکھو ذرا

زمین وہی ہے

وہی فضا ہے

وہی ہے بارش

وہی ہے سبزہ

 وہی ثمر ہیں

وہی شجر ہیں

بس مکین بدل گۓ ہیں

بے نشان ہو گۓ ہیں

سب کہیں کھو گۓ ہیں

شاعرہ : فاخرہ تبسم 






Tuesday, 24 November 2020

خود غرضی



 ہر  شخص   اپنی  سنانا   چاہتا    ہے

ہر خوشی خود کے لیے اپنانا چاہتا ہے


رشتوں کی حرمتیں لالچوں میں ڈھل گئیں

  ہر   کوئ بادشاہ   کہلانا  چاہتا    ہے 


اس قافلے کا خدا خیر کرے جس میں

ہر  شخص   اپنی   منوانا   چاہتا  ہے


چند  لمحوں کی ہنسی پانے کے لیے 

آنسو  اوروں  کے   بہانا چاہتا  ہے 


 ہر شخص ہے فرشتہ خود کی نظر میں

  بس دوسروں کو آزمانا   چاہتا   ہے


اپنے  محل  میں روشنی  کے لیے

لہو   غریب   کا   جلانا  چاہتا ہے

         



Thursday, 19 November 2020

پاک فوج تجھے سلام



 پاک فوج تجھے سلام 

اے میری دھرتی کے نگہبانو

اے ارض گلستاں کے پاسبانو

اے عیش وعشرت سے دور ہو کر

وطن کی سرحدوں کے پہرے دارو

جھلستی گرمی ،ٹھٹھرتی سردی 

میں شجاعت کے تمغے سجانے والو

اے راہ وفا پہ جانے والو

اے وطن کی حرمت بڑھانے والو

تمہارے دم سے میرے وطن میں

ہوائیں آذادی کے گیت گائیں

تمہارے دم سے میرے وطن میں

 امن کے  دیپ جگمگائیں

چمن کے باسی سکون کی 

وادیوں میں مسکرایئں،کھلکھلایئں

 تم  ہو لشکر ابن قاسم

تم ہی للکار حیدری ہو 

تم ہی ہو اذان اہل حق کی

تمہی شجاعت غزنوی ہو

تمہی تو باطل کے سروں پر

خوف بن کر چھا رہے ہو 

اے حق کی اذانیں دینے والو

تم ہی تو فلاح پا رہے ہو

یہ جذبے اور ایمان کا جوش لے کر

ہر اک موسم سے بےنیاز ہو کر 

اے حق کی راہوں پہ جانے والو

اور اپنی جانیں لٹانے والو

تمہارا جینا عظیم تر ہے

تمہارا مرنا عظیم تر ہے 

وطن کی خاطر،اہل چمن کی خاطر

اپنا لہو بہانے والو 

سلام تم پر 

سلام تم پر

شاعرہ: فاخرہ تبسم




Saturday, 14 November 2020

میرے دیس کے بچوں کے

 🌸🌸🌸🌸


میرے دیس کے بچوں کے کچھ خواب سہانے ہیں
کچھ قرض ہیں ان کے جو ہمیں مل کے چکانے ہیں

قربان    ہوۓ   تھے  جو
  یہ   ملک  بنانے میں 
معصوم سے بچوں کے  ان  گنت  افسانے  ہیں

جو   عظیم  مقاصد   کے
    پیغام    سناتے    تھے
 وہ خواب کہاں  ہیں  جو  پروان   چڑھانے   ہیں 

 کتابوں کی جگہ ان سے کیوں  بھیک منگواتے  ہو  
  حسن    ہیں  دھرتی  کا  آزادی   کے  ترانے ہیں
  
جو سیکھا تھا انہوں نے  ماؤں  کی  کوکھوں  سے 
وہ سبق   کہاں    ہیں  جو  ان  کو  سکھانے  ہیں

عظیم    قوموں    کے 
   عظیم    مقاصد    ہیں
اس دور کے بچوں کو  جو ہم نے  تھمانے ہیں
شاعری:فاخرہ تبسم              

🌸🌸🌸🌸🌸

Friday, 13 November 2020

لفظوں کے



 لفظوں کے کہاں بس میں

 زندگی کے صفحوں کو 

سیاہ سفید حرفوں کو 

نفرتوں محبتوں کو

بیان میں لے آئیں

لفظوں کے کہاں بس میں 

بے شمار باتوں کو 

ان گنت راتوں کو 

چمکتی ہوئ صبحوں کو 

سرمئ شاموں کو

قہقے اور خوشبوئیں

اُمیدیں ، آرزوئیں 

بیتے ہوے سنہری پل

آنے والے روشن کل

بیان میں لے آئیں 

لفظوں کے کہاں بس میں 

بقلم : فاخرہ تبسم


Thursday, 12 November 2020

کشمیر

 حالات کےدھاروں کیبکھری ہوئ تصویریں


کہیں خواب شکستہ ہیں کہیں سہمی ہوئ تعبیریں
ہرسمت چھائ ہےسیاہ بخت کی تاریکی

اجڑےہوۓ لوگوں کیغمناک سی تحریریں


جنت نشاں وادی ہرسو لہو  لہو
آزاد ہوںگی کی اس دیس کی  جاگیریں

ارض گلستاں بھی رو روکرصدائیں دے
کب ٹوٹیںگی یہ ظلم وجبرکی   زنجیری

یہ کیسی قیامت ہےاس شہر پہ اے مولا
نیزوں کے ساۓ تلے پلتی ہیں  تقدیریں


Wednesday, 11 November 2020

کشمیریوں کے نام



 اے کشمیر کے مظلوم لوگو

مانا کہ تم پر ظلم و جبر کی

داستاں طویل تر ہے

تم ہی جانتے ہو یا

تمہارے بدن ناتواں

اندھیری تاریک سیاہ راتیں

خوف اور ڈر کی اذیت ناک

سولی پہ لٹکے

ہر رات کیسے گزارتے ہو

کئ رشتے گنوا کے تم 

بچے کھچےچند پیارے رشتے

اپنے کمزور بازوں میں چھپا کر

رو رو کے صبحیں گزارتے ہو

لمحہ لمحہ جو گزر رہی ہے

وہ قیامت تمہی جانتے ہو

ہم ڈرپوک دل وبدن کے انساں

جلسے جلوس کی حد میں لپٹی

نام ونہاد محبت

تم پر احساں جتا رہے ہیں

کمزور ایمان کے لوگ سارے

مجبوریوں کی زنجیروں میں جکڑے

لفظ ہمدردی اورڈھارسوں کے

تمہارے لیۓ مرہم کی صورت

وہ لفظ تم تک پہنچا رہے ہیں

جو آج تم پر(کافر) قہربنے ہیں 

کل ان پر قہر خدا گرے گا

تمہارے آنسوؤں کاقطرہ قطرہ

سسک سسک کے گزرےلمحوں

تم پر گزری قیامتوں کا

تمہارا مالک حساب لے گا

عدالت جبار ہو گی

پھر قہر قہار ہو گا

ان کے جسموں سے 

سانپ بچھو 

لہو نچوڑیں گےاس طرح سے

کہ چیخ اٹھیں گی روحیں   (کافروں)ان کی

نہ مایوس ہونا!

تمہاری آہیں، تمہاری چیخیں

زمین وسماء کو ہلا رہی ہیں 

تمہارے خالق تک جا رہی ہیں

وہی ان سے حساب لے گا

وہی تمہیں جزا بھی دے گا

رتبہ بے حساب دے گا

بس ایمان اپنا بچا کے رکھنا

یقین یہ سنبھال رکھنا




Saturday, 7 November 2020

ہمارا معاشرہ اور ہمارے اخلاق



: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا 

تم میں بہتر وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔

حسن اخلاق کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم   کردار ادا کرتا ہے ۔کیونکہ معاشرہ انسانوں سے بنتا ہےاور انسانوں کے رویے معاشرے کی اصلاح اور بیگاڑ دونوں کا کام کرتے ہیں ۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت  کے  مقدر  کا ستارہ

اگر ہم آج اپنے  رویوں کا جائزہ لیں تو وہ انا ، غرور،تعصب ،باہمی تضاد میں لپٹے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ پیسہ کمانا ہماری اولین ترجیح ہے ۔جس میں ہم کس بھی حد تک جا سکتے ہیں۔رشوت ، سفارش ، بے ایمانی سود ،حرام خوری عام ہے۔ بلکہ ہم نے اسے گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔گالی گلوچ ، طعنہ زنی ایک دوسرے کا حق غصب کرنا    ،الزام تراشی ، بہتان بازی ہماری  شخصیت کا حصہ بن چکی ہے۔

  جبکہ ہمارے لیۓ ہمارے پیارے نبیﷺ  کی زندگی 
بہترین نمونہ ہے آپﷺ کا اخلاق اتنا متاثر کن تھاکہ غیرمسلم بھی اسلام لے آتے ۔صحابہ کرامؓ اور تبع تابعین
 آپﷺ کے نقشےقدم پر چلتے ہوۓ   اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔لیکن افسوس اور شرمندگی
کی بات یہ ہے کہ نبیﷺ کا میلاد منانے اور ان سے محبت کے دعوے کرنے والے ہمارے آج
کے مسلمان اخلاق کی پستیوں میں اس حد تک گرےہوۓ ہیں کہ زمانہ جاہلیت کا عکس دکھائ دیتے ہیں۔
ہم نے اسلامی تعلیمات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ہمارا اسلام ہمیں مساوات کا درس دیتا ہے جبکہ آج
ہمارے معاشرے میں طبقاتی فرق واضح ہے امیر قابل عزت جبکہ غریب کی کوئ عزت اور زندگی نہیں۔صرف 
معاشرہ ہی نہیں غریب انسان سے رشتے دار بھی کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ۔
دوسری طرف چرب زبانی کو بھیعزت کا معیار اور قابلیت تصور کیا جاتا ہے جبکہ سادگی
 باعث شرمندگی ہے۔شادی بیاہ، تہواروں،اور دیگر تقریبات پر نمود ونمائش اور دکھاوے کو اہمیت دی جاتی 
 ہے ۔بیشتر سرمایہ فلاح وبہبود کے کاموں میں لگانے کی
بجاۓ غیر ضروری کاموں میں بے دریغ خرچ  کیا جاتا ہے۔ہمارے اخلاق اس حد تک پست ہو چکے ہیں کہ ہم 
اپنے مفاد کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے۔ہمارے تعلقات ، ہماری رشتہ داریاں، ہمارے روزمرہ کے 
لین دین ، ہمارے کاروبار ،ہماری گفتگو ،غرض ہماریہر بات اپنے مفاد سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوتی ہے
ہم والدین ہمسائوں ،رشتہ داروں ،مسافروں،بزرگوں ،مسکینوں، یتیموں، ملازموں اور دیگر تمام حقوق بھول گۓ
جو اللہ نے ہمارے لیۓ مقرر کیۓ تھے۔ہم نے یہ تمامحقوق غصب کرکے معاشرے کے بگاڑ میں اپنا انفرادی 
حصہ ڈال کر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی ہے  
اگر ہم اپنے معاشرے میں سدھار چاہتے ہیں تو ہمیں ابتداء خود سے کرنی ہو گی دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجاۓ پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔اس کے لیۓ ہمیں کچھ چیزوں کو خود پر لاگو کرنا ہو گا۔
ہمیں  اللہ کاشکر کرنا سیکھنا ہونا ہو گا۔ شکر کرنا ذہن ودل کو مطمئن رکھتا ہےاور انسان حرص ولالچ سے بچ جاتا ہے اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھ کر انسان کو بہت سی نعمتوں کا احساس ہوتاہےجو شائد ناشکریمیں         نظر نہیں آتیں اللہ سے ہمیشہ ہدایت طلب کرنی چاہۓ تاکہ  اللہ ہمیں سیدھے راستے پر رکھ  اور ہم  بہت سی برائیںوں سے بچ سکیں۔یہ سب اللہ کی توفیق سے ممکن ہے   
 
اس کے لیے ہمیشہ اللہ سے ہدایت طلب کریں ۔
جیسے کہ اللہ نے ہمیں دعا سکھائی۔
اھدنا الصراط المستقیم
اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
ہمارے پیارے نبیﷺ  نے ہمیں اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیۓ ہمیں بہت سی
دعائیں بتائیں۔جنہیں ہم اپنی روز مرّہ زندگی کا معمول بنائیں تاکہ اللہ کاہم پر خاص فضل ہو اور ہم شیطان کے وار سے محفوظ رہیں۔
۔جاری ہے۔۔۔۔۔

 

آج کے انسان سے سوال





یہ جو اُتر رہیں ہیں قیامتیں ٗ ذرا خود میں جھانک کے دیکھ تو

تو    کیا سے کیا ہے بن گیا    شعور جگا    کے    دیکھ تو 


یہ بارشیں جو رحمتیں کیوں    زحمتیں    ہیں بن گئیں

    کیوں آسمان کی بدلیاں    وحشتیں    ہیں    بن    گئیں  


سمندروں میں لہروں کے طوفان کیوں اُبل پڑے

یہ زمین   کے   فرش   کیوں   آگ ہیں  اُگل رہے


میری قوم کی بیٹیاں کیوں بے ردا ہیں ہو گئیں

 حوا  کی  بیٹیاں آج  کیا سے  کیا  ہیں  بن گئیں 


دیکھ ذرا اِرد گرد آخر اسکی وجہ ہے کیا

غضبِ خدا کا قہر کیوں خلقِ خدا پے آ گرا


لباس کے نام پر جسم پہ زیبِ تن ہے کیا

کس طرح اُڑا رہے ہیں شرم و حیا کی دھجیاں


دولت کی بھوک میں تمیز حلال و حرام کی نہ رہی

سود کے جال میں پوری قوم ہے پھنس گئ


تعلیم کے نام پر پڑھ رہے ہیں کیا ہم آج

برائیوں کا کس طرح سے ختم ہو گا پھر راج


معصوم سے بچپن کس سمت ہیں جا رہے

کیبل ٗ انٹرنیٹ پر وقت ہیں گنوا رہے


جو جی رہے ہیں اُن کی کچھ خبر ہی نہیں

مریں تو پھولوں کی چادریں ہیں چڑھیں


پھر کس طرح سے خدا کی رحمتوں کا نزول ہو

اور گلہ ہے ہمیں ٗ کہ دعائیں ہماری قبول ہوں

شاعرہ : فاخرہ تبسّم

Thursday, 5 November 2020

ہمارے تعلیمی ادارے

 

ہمارے تعلیمی ادارے جن کی تعداد ہمارے ملک میں ہزاروں کے قریب ہے۔جن میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں شامل ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے   پچوں کی تعلیم اور تربیت کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں اور یہاں سے نکلنے والے بچے معاشرے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی ادارے کیا واقعی مسلمانوں کے تعلیمی ادارے کہلاۓ جانے کے لائق ہیں آئیے اپنے اردگرد جائزہ تعلیمی اداروں کا جائزہ لیتے ہیں جن میں زیادہ تر ادارے پیسہ بٹورنے کی کمپنیاں دکھائی دیتے ۔ہیں>

۔والدین پر فیسوں کا بےتحاشا بوجھ ڈال کر اور سارا سال سکول کے نام پر پیسہ بٹور کر یہ ادارےاور ان  کے سربراہان اپنی پراپرٹی بنانے میں مصروف ہیں۔بچوں کے والدین کو انگریزی کلچر سے  متاثر کر کےیہ لوگ جس طرح مستقبل کے معماروں کا بیڑاغرق کر رہے ہیں ۔یہ تو ہماری سوچ سے بھی بالاترہے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ذہنوں میں مغرب کا کلچر انجیکٹ کر کے یہ ادارے اسلامی نظام تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔اکسفورڈ کے سلیبس ٗانگریزی لب ولہجہ ٗ ماڈرن ٹیچرز ٗمغربی کلچر  کو فروغ دیتے ہوے یہ ادارے اسلام کے مجرم ہیں۔سالانہ رذلٹ فنگشن اور دیگر تقریبات کے نام پر ہونے والے غیر اخلاقی پروگرام  ٗجن میں بچوں کے ٹیبلو ٗ ناچ گانے ٗفیشن واک ٗڈرامے اور دیگر سرگرمیاں شامل ہیں ۔۔۔۔۔بچوں کی کیا  اخلاقی تربیت کر رہےہیں؟ کالج میں تعلیم کے نام پر جس طرح بے حیائ  پھیل رہی ہے اس کے بارے میں اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

                 شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے

       سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا


 پاکستان جو مسلمانوں کی طویل جدوجہد کےبعد معرض وجود میں آیا جس کو بنانے کا  مقصد ایک ایسی مسلم ریاست کا قیام تھا جس میں مسلمان اور ان کی آنے  والی نسلیں اپنے مذہب اسلام کو اپنانے اور نافذ کرنے  میں آزاد اور خود مختار ہوں۔جہاں اسلام قوت بن کر  ابھرے مسلمانوں کی شناخت مسخ نہ ہو۔آنے والی  نسلیں پوری آذادی  سے اپنی تہزیب, ثقافت اور مزہب کو اختیار کرنے میں آزاذ ہوں۔ایک ایسی  اسلامی ریاست جس میں خالد بن ولید, طارق بن زیاد محمد بن قاسم, صلاح الدین ایوبی, شہاب الدین غوری جیسے نوجوان پیدا ہوں ۔ایسا اسلامی معاشرہ جس میں  اسلام کے عظیم جرنیل پروان چڑھیں۔ اسلامی تعلیم  عام ہو۔قائد اعظم نے کانگرس سے خائف ہو کر  مسلم لیگ  اس لیے بنائ کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے  کہ انگریز مسلمانوں کے دشمن ہیں وہ انہیں غلام  بنانا چاہتے ہیں ۔لیکن افسوس جس ذہنی غلامی سے  بچنے کے لیے یہ پاکستان بنایا گیا آج وہی غلامی ہماری نوجوان نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔کانونٹ ،برٹش سکول سسٹم،اکسفورڈ اور دیگر ایسے تعلیمی
ادارے جو ملک میں انگریزی کلچر کو فروغ دے رہے  ہیں زہر قاتل کا کام کر رہے ہیں ۔
ان سکولز کے تربیت یافتہ بچے کیا اسلامی سانچے میں ڈھلے ہو سکتےہیں ۔کیا ان کے ذہن اقبال 
کے مرد مجاہد اور شاہین کہلانے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔جن کے بارے میں اقبال نے اپنی شاعری 
میں بہت کچھ لکھا۔
محبت مجھے ان جوانو سے ہے                   
  ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند                   

۞۞۞۞

عقا بی  روح جب بیدار ہوتی  ہے  جوانو  میں            
تو نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں        
یہی بچے جب ایسے اداروں سے۔ابت تعلیم حاصل کرنے کے بعد نکلتے ہیں تو ان کی مزید برین ڈولپمنٹ  کے لیۓ (لمز)جیسےتعلیمی ادارے موجود ہوتے ہیں جو رہی
 سہی کسربھی پوری کر دیتے ہیں۔  مخلوط نظام تعلیم،
بیہودگی، نیم برہنہ لباس ، فحاشی اور لبرل ازم کے نامپر دی جانے والی یہ آذادی جن میں والدین کے ساتھ ساتھ یہ ادارے برابر بھی ذمہ دار  کے ذمہ دار ہیں نوجوان نسل کو
کس سمت لے جا رہے ہیں ۔کیا پاکستان کے قیام کا
مقصد ایسے نوجوانوں کو تیار کرناتھا جن کی زندگیوں کا مقصد ۔تعیش کے سوا کچھ بھی نہیں ۔جنہوں نے نہ گھروں میں اسلام دیکھا نہ تعلیمی اداروں میں ۔جن کے نزدیک اسلام چند مخصوص ارکان کا نام ہے۔کیا ان کے ہاتھ 
پاکستان کا مستقبل ہو گا۔خدارا ایسے تعلیمی اداروں کےانتخاب سے بچیے جو آپ کے بچوں کی دنیا اور آخرت
دونوں تباہ کر دیں۔اپنے بچوں کے معصوم ذہنوں کومغربی کلچراوربیہودگی سے آلودہ نہ کریں وہ مغربی کلچر
جن کے بچے والدین کے نافرمان،عشق و عاشقی میں ڈوبے ہوۓ، بے سکون غیر مطمئن، شراب ،جوا،نشے ایڈز جیسی لعنتون  کا شکار ہیں ۔ آئیے اپنے بچوں کو اسلام جیسے بہترین ،پا کیزہ، عظیم مذہب سے روشناس کروائیےتاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوں۔اور آپ کے لیۓ صدقہ جاریہ بنیں ورنہ سواۓ پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آۓ گا۔

خلوص اب انسان کی۔۔۔۔



 اس  دور   میں جینا  آسان   نہیں ہے 

کون ہے جو کسی سے بدگمان نہیں ہے


محبتوں پہ چرھ گۓ حرص کے غلاف 

خلوص اب انسان کی پہچان نہیں ہے


ایمان   بیچ   کر   دولت   خرید لی

 انسان اس  دور کا  انسان نہیں ہے 


بِک جاتی ہے بازاروں میں بیٹی حّوا کی 

حیوان     ہے    گویا    انسان  نہیں  ہے 


ضمیر  کے   بدلے  شہرت   خرید    کر

انسان   ذرا   بھی   پشیمان    نہیں  ہے


کیا کہوں, کیسے کہوں سمجھ کچھ نہیں آتا

کیا  ہمیں  خود  کی  بھی  پہچان  نہیں  ہے 


پھرتے ہیں یہاں سارے حرص و ہوس کے پجاری 

شاید    کوئ   بھی  صاحبِ   ایمان    نہیں  ہے

بقلم : فاخرہ تبسم

Wednesday, 4 November 2020

مزدور بچوں کے نام


 ۞  مزدور بچوں کے نام  ۞

پھول جیسے حسین چہروں پہ

         کیوں راہ کی دھول جمی ہے  

کیوں اُداس آنکھوں میں بےبسی کے

آشک آکر ٹھہر گۓ ہیں

خاموش لب ویران چہرے

بےبسی کانشاں بنے ہیں

یا ہم سے شکوہ کناں ہیں بولو

بتاؤ ان کا قصور کیا ہے

یہ تو قوم کا مستقبل ہیں 

اور قوم انہی کوکھو رہی ہے

یہ لُٹے پھٹے حیران بچے

بتاؤ کل یہ کیا بنیں گے

بقلم :فاخرہ تبسم            






 میری سب عقیدتیں نگارشیں 
  قربان تجھ پہ آقا میرے

میرے لفظو ں کی سب گزارشیں
 قربان تجھ پہ آقا میرے




نعت رسول ﷺ




                                                        وہ ہے ہمارا نبیﷺ  
وہ ہےپیارانبیﷺ             

روز محشر میں خوف کا جب  ہو گا سماں

 ہر طرف ہیبت خالق دو جہاں

سارے انبیاِء بھی ڈرے اور سہمے ہوئے

نفسی نفسی پکارے گا جب ہر اک انسان

اس وقت ایک صدا ہوگی کہیں


اے مالک دوجہاں اُمتی اُمتی

                                اے مالک دوجہاں امتی امتی    

جس نے طائف کے لوگوں کے پتھر سہے

جس نے لوگوں کی باتوں کے نشتر سہے

غار حرا میں ہو گیا جو مکیں

    

وہ ہےہمارا نبیﷺ وہ ہے پیارا نبی


جس نے دنیا کو اجالوں سے منور کیا

دین اسلام سے دلوں کو روشن کیا

مٹا  دیں  جہالت   کی    تاریکیاں

سمجھادیں اسلام کی ساری باریکیاں


 وہ ہے ہمارا نبیﷺ وہ ہے ہمارانبیﷺ

 

Tuesday, 3 November 2020

اے مسلمان عورت




غفلت کے اندھیروں میں ڈوبی اس قوم کو بیدار کرو
 اے  ماؤں ,  بہنو, بیٹیو   اک   فوج   نئی   تیار   کرو

آنے    والے    وقت   میں   حالات    بدلنے   والے   ہیں
فتنے   سر   اٹھایئں   گے   خبردار    رہو ٗ  ہشیار کرو

کشمیر   کی   آذادی   کا اک  باب  نیا  اب کھلنا ہے
آذادی   کے   متوالو     ٗ تیار     اپنے   ہتھیار   کرو

وہ بیٹے   جو   ماؤں  کو عظمت کے تاج پہناتے ہیں
اسلام کی قوت بن کے ابھریں پیدا ایسے سالار کرو

لوریاں    سناؤ   انہیں   اسلام  کے  شاہینوں   کی
اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ملت  کا  غم خوار   کرو

اسیروں   کی رہائی  بھی  فرض   ہمارا   بنتا   ہے
آذادی کی شمعیں ہوں روشن کفر پہ ایسا وار کرو

ہو   رہا   ہے جگ  میں باطل   قوتوں   کا     اتحاد
اس بھولی بھٹکی قوم کو اسلام کا  وفادار    کرو

بکھرے   ہوے  لوگوں  کو اک  مرکز  پر پھر لانا ہے
اپنے اخلاق حسنہ سے دل ان کے  بیدار  کرو

اوراق پلٹ کر ماضی کے خنساءؓ کی سیرت دہرا دو
تاریخ کا روشن  باب  بنو  زندہ  ایسے کردار کرو

شاعرہ :  فاخرہ تبسمؔؔ

قرآن پڑھانا واجب ہے

جس دیس کی مائیں

  جس دیس کی مائیں بچوں کو مغرب کے سبق سکھاتی ہوں جس دیس کی مائیں بچوں کو گانوں کی دُھن پہ سلاتی ہوں جس دیس کی مائیں بچیوں کے فحاشی...