اے وقت کوئی ایسا چراغ لا دے
جو کھویا ہوا بچپن لوٹا دے
مڑ کر بھی نہ دیکھوں رنگِ شباب کو
ایک بار چمکتے ہوے دنوں کو صدا دے
مجھ کو لے جا اڑے پھر اُس دیس میں
مولا ہوا کوئی ایسی چلا دے
نہ سوچ ، نہ خواب ، نہ فکرِ معاش تھی
وہ لا ابالی سے وقت کو پھر سے بُلا دے
جس کے سُروں میں ہو سُرورِ زندگی
بھٹکے ہوۓ بچپن کا کوئ گیت سنا دے
ہنستے تھے تو ہنسی میں تھے رنگ بکھرتے
کوئ پھر سےساز کے ان تاروں ںکو بجا دے
بوسیدہ میرامکان مجھےمنظور ہےلیکن
مولا میرا جنت میں اک محل بنا دے