یہ جو اُتر رہیں ہیں قیامتیں ٗ ذرا خود میں جھانک کے دیکھ تو
تو کیا سے کیا ہے بن گیا شعور جگا کے دیکھ تو
یہ بارشیں جو رحمتیں کیوں زحمتیں ہیں بن گئیں
کیوں آسمان کی بدلیاں وحشتیں ہیں بن گئیں
سمندروں میں لہروں کے طوفان کیوں اُبل پڑے
یہ زمین کے فرش کیوں آگ ہیں اُگل رہے
میری قوم کی بیٹیاں کیوں بے ردا ہیں ہو گئیں
حوا کی بیٹیاں آج کیا سے کیا ہیں بن گئیں
دیکھ ذرا اِرد گرد آخر اسکی وجہ ہے کیا
غضبِ خدا کا قہر کیوں خلقِ خدا پے آ گرا
لباس کے نام پر جسم پہ زیبِ تن ہے کیا
کس طرح اُڑا رہے ہیں شرم و حیا کی دھجیاں
دولت کی بھوک میں تمیز حلال و حرام کی نہ رہی
سود کے جال میں پوری قوم ہے پھنس گئ
تعلیم کے نام پر پڑھ رہے ہیں کیا ہم آج
برائیوں کا کس طرح سے ختم ہو گا پھر راج
معصوم سے بچپن کس سمت ہیں جا رہے
کیبل ٗ انٹرنیٹ پر وقت ہیں گنوا رہے
جو جی رہے ہیں اُن کی کچھ خبر ہی نہیں
مریں تو پھولوں کی چادریں ہیں چڑھیں
پھر کس طرح سے خدا کی رحمتوں کا نزول ہو
اور گلہ ہے ہمیں ٗ کہ دعائیں ہماری قبول ہوں
شاعرہ : فاخرہ تبسّم