اس دور میں جینا آسان نہیں ہے
کون ہے جو کسی سے بدگمان نہیں ہے
محبتوں پہ چرھ گۓ حرص کے غلاف
خلوص اب انسان کی پہچان نہیں ہے
ایمان بیچ کر دولت خرید لی
انسان اس دور کا انسان نہیں ہے
بِک جاتی ہے بازاروں میں بیٹی حّوا کی
حیوان ہے گویا انسان نہیں ہے
ضمیر کے بدلے شہرت خرید کر
انسان ذرا بھی پشیمان نہیں ہے
کیا کہوں, کیسے کہوں سمجھ کچھ نہیں آتا
کیا ہمیں خود کی بھی پہچان نہیں ہے
پھرتے ہیں یہاں سارے حرص و ہوس کے پجاری
شاید کوئ بھی صاحبِ ایمان نہیں ہے
بقلم : فاخرہ تبسم