: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
تم میں بہتر وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔
حسن اخلاق کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔کیونکہ معاشرہ انسانوں سے بنتا ہےاور انسانوں کے رویے معاشرے کی اصلاح اور بیگاڑ دونوں کا کام کرتے ہیں ۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر ہم آج اپنے رویوں کا جائزہ لیں تو وہ انا ، غرور،تعصب ،باہمی تضاد میں لپٹے ہوۓ نظر آتے ہیں۔ پیسہ کمانا ہماری اولین ترجیح ہے ۔جس میں ہم کس بھی حد تک جا سکتے ہیں۔رشوت ، سفارش ، بے ایمانی سود ،حرام خوری عام ہے۔ بلکہ ہم نے اسے گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔گالی گلوچ ، طعنہ زنی ایک دوسرے کا حق غصب کرنا ،الزام تراشی ، بہتان بازی ہماری شخصیت کا حصہ بن چکی ہے۔
جبکہ ہمارے لیۓ ہمارے پیارے نبیﷺ کی زندگی
بہترین نمونہ ہے آپﷺ کا اخلاق اتنا متاثر کن تھاکہ غیرمسلم بھی اسلام لے آتے ۔صحابہ کرامؓ اور تبع تابعین
آپﷺ کے نقشےقدم پر چلتے ہوۓ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔لیکن افسوس اور شرمندگی
کی بات یہ ہے کہ نبیﷺ کا میلاد منانے اور ان سے محبت کے دعوے کرنے والے ہمارے آج
کے مسلمان اخلاق کی پستیوں میں اس حد تک گرےہوۓ ہیں کہ زمانہ جاہلیت کا عکس دکھائ دیتے ہیں۔
ہم نے اسلامی تعلیمات کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ہمارا اسلام ہمیں مساوات کا درس دیتا ہے جبکہ آج
ہمارے معاشرے میں طبقاتی فرق واضح ہے امیر قابل عزت جبکہ غریب کی کوئ عزت اور زندگی نہیں۔صرف
معاشرہ ہی نہیں غریب انسان سے رشتے دار بھی کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ۔
دوسری طرف چرب زبانی کو بھیعزت کا معیار اور قابلیت تصور کیا جاتا ہے جبکہ سادگی
باعث شرمندگی ہے۔شادی بیاہ، تہواروں،اور دیگر تقریبات پر نمود ونمائش اور دکھاوے کو اہمیت دی جاتی
ہے ۔بیشتر سرمایہ فلاح وبہبود کے کاموں میں لگانے کی
بجاۓ غیر ضروری کاموں میں بے دریغ خرچ کیا جاتا ہے۔ہمارے اخلاق اس حد تک پست ہو چکے ہیں کہ ہم
اپنے مفاد کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتے۔ہمارے تعلقات ، ہماری رشتہ داریاں، ہمارے روزمرہ کے
لین دین ، ہمارے کاروبار ،ہماری گفتگو ،غرض ہماریہر بات اپنے مفاد سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوتی ہے
ہم والدین ہمسائوں ،رشتہ داروں ،مسافروں،بزرگوں ،مسکینوں، یتیموں، ملازموں اور دیگر تمام حقوق بھول گۓ
جو اللہ نے ہمارے لیۓ مقرر کیۓ تھے۔ہم نے یہ تمامحقوق غصب کرکے معاشرے کے بگاڑ میں اپنا انفرادی
حصہ ڈال کر اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی ہے
اگر ہم اپنے معاشرے میں سدھار چاہتے ہیں تو ہمیں ابتداء خود سے کرنی ہو گی دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجاۓ پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔اس کے لیۓ ہمیں کچھ چیزوں کو خود پر لاگو کرنا ہو گا۔
ہمیں اللہ کاشکر کرنا سیکھنا ہونا ہو گا۔ شکر کرنا ذہن ودل کو مطمئن رکھتا ہےاور انسان حرص ولالچ سے بچ جاتا ہے اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھ کر انسان کو بہت سی نعمتوں کا احساس ہوتاہےجو شائد ناشکریمیں نظر نہیں آتیں اللہ سے ہمیشہ ہدایت طلب کرنی چاہۓ تاکہ اللہ ہمیں سیدھے راستے پر رکھ اور ہم بہت سی برائیںوں سے بچ سکیں۔یہ سب اللہ کی توفیق سے ممکن ہے
اس کے لیے ہمیشہ اللہ سے ہدایت طلب کریں ۔
جیسے کہ اللہ نے ہمیں دعا سکھائی۔
اھدنا الصراط المستقیم
اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہمیں اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیۓ ہمیں بہت سی
دعائیں بتائیں۔جنہیں ہم اپنی روز مرّہ زندگی کا معمول بنائیں تاکہ اللہ کاہم پر خاص فضل ہو اور ہم شیطان کے وار سے محفوظ رہیں۔
۔جاری ہے۔۔۔۔۔