Thursday, 5 November 2020

ہمارے تعلیمی ادارے

 

ہمارے تعلیمی ادارے جن کی تعداد ہمارے ملک میں ہزاروں کے قریب ہے۔جن میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں شامل ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تعلیمی ادارے   پچوں کی تعلیم اور تربیت کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں اور یہاں سے نکلنے والے بچے معاشرے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی ادارے کیا واقعی مسلمانوں کے تعلیمی ادارے کہلاۓ جانے کے لائق ہیں آئیے اپنے اردگرد جائزہ تعلیمی اداروں کا جائزہ لیتے ہیں جن میں زیادہ تر ادارے پیسہ بٹورنے کی کمپنیاں دکھائی دیتے ۔ہیں>

۔والدین پر فیسوں کا بےتحاشا بوجھ ڈال کر اور سارا سال سکول کے نام پر پیسہ بٹور کر یہ ادارےاور ان  کے سربراہان اپنی پراپرٹی بنانے میں مصروف ہیں۔بچوں کے والدین کو انگریزی کلچر سے  متاثر کر کےیہ لوگ جس طرح مستقبل کے معماروں کا بیڑاغرق کر رہے ہیں ۔یہ تو ہماری سوچ سے بھی بالاترہے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے ذہنوں میں مغرب کا کلچر انجیکٹ کر کے یہ ادارے اسلامی نظام تعلیم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔اکسفورڈ کے سلیبس ٗانگریزی لب ولہجہ ٗ ماڈرن ٹیچرز ٗمغربی کلچر  کو فروغ دیتے ہوے یہ ادارے اسلام کے مجرم ہیں۔سالانہ رذلٹ فنگشن اور دیگر تقریبات کے نام پر ہونے والے غیر اخلاقی پروگرام  ٗجن میں بچوں کے ٹیبلو ٗ ناچ گانے ٗفیشن واک ٗڈرامے اور دیگر سرگرمیاں شامل ہیں ۔۔۔۔۔بچوں کی کیا  اخلاقی تربیت کر رہےہیں؟ کالج میں تعلیم کے نام پر جس طرح بے حیائ  پھیل رہی ہے اس کے بارے میں اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

                 شکایت ہے مجھے یارب خداوندان مکتب سے

       سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا


 پاکستان جو مسلمانوں کی طویل جدوجہد کےبعد معرض وجود میں آیا جس کو بنانے کا  مقصد ایک ایسی مسلم ریاست کا قیام تھا جس میں مسلمان اور ان کی آنے  والی نسلیں اپنے مذہب اسلام کو اپنانے اور نافذ کرنے  میں آزاد اور خود مختار ہوں۔جہاں اسلام قوت بن کر  ابھرے مسلمانوں کی شناخت مسخ نہ ہو۔آنے والی  نسلیں پوری آذادی  سے اپنی تہزیب, ثقافت اور مزہب کو اختیار کرنے میں آزاذ ہوں۔ایک ایسی  اسلامی ریاست جس میں خالد بن ولید, طارق بن زیاد محمد بن قاسم, صلاح الدین ایوبی, شہاب الدین غوری جیسے نوجوان پیدا ہوں ۔ایسا اسلامی معاشرہ جس میں  اسلام کے عظیم جرنیل پروان چڑھیں۔ اسلامی تعلیم  عام ہو۔قائد اعظم نے کانگرس سے خائف ہو کر  مسلم لیگ  اس لیے بنائ کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے  کہ انگریز مسلمانوں کے دشمن ہیں وہ انہیں غلام  بنانا چاہتے ہیں ۔لیکن افسوس جس ذہنی غلامی سے  بچنے کے لیے یہ پاکستان بنایا گیا آج وہی غلامی ہماری نوجوان نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔کانونٹ ،برٹش سکول سسٹم،اکسفورڈ اور دیگر ایسے تعلیمی
ادارے جو ملک میں انگریزی کلچر کو فروغ دے رہے  ہیں زہر قاتل کا کام کر رہے ہیں ۔
ان سکولز کے تربیت یافتہ بچے کیا اسلامی سانچے میں ڈھلے ہو سکتےہیں ۔کیا ان کے ذہن اقبال 
کے مرد مجاہد اور شاہین کہلانے کے قابل ہو سکتے ہیں ۔جن کے بارے میں اقبال نے اپنی شاعری 
میں بہت کچھ لکھا۔
محبت مجھے ان جوانو سے ہے                   
  ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند                   

۞۞۞۞

عقا بی  روح جب بیدار ہوتی  ہے  جوانو  میں            
تو نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں        
یہی بچے جب ایسے اداروں سے۔ابت تعلیم حاصل کرنے کے بعد نکلتے ہیں تو ان کی مزید برین ڈولپمنٹ  کے لیۓ (لمز)جیسےتعلیمی ادارے موجود ہوتے ہیں جو رہی
 سہی کسربھی پوری کر دیتے ہیں۔  مخلوط نظام تعلیم،
بیہودگی، نیم برہنہ لباس ، فحاشی اور لبرل ازم کے نامپر دی جانے والی یہ آذادی جن میں والدین کے ساتھ ساتھ یہ ادارے برابر بھی ذمہ دار  کے ذمہ دار ہیں نوجوان نسل کو
کس سمت لے جا رہے ہیں ۔کیا پاکستان کے قیام کا
مقصد ایسے نوجوانوں کو تیار کرناتھا جن کی زندگیوں کا مقصد ۔تعیش کے سوا کچھ بھی نہیں ۔جنہوں نے نہ گھروں میں اسلام دیکھا نہ تعلیمی اداروں میں ۔جن کے نزدیک اسلام چند مخصوص ارکان کا نام ہے۔کیا ان کے ہاتھ 
پاکستان کا مستقبل ہو گا۔خدارا ایسے تعلیمی اداروں کےانتخاب سے بچیے جو آپ کے بچوں کی دنیا اور آخرت
دونوں تباہ کر دیں۔اپنے بچوں کے معصوم ذہنوں کومغربی کلچراوربیہودگی سے آلودہ نہ کریں وہ مغربی کلچر
جن کے بچے والدین کے نافرمان،عشق و عاشقی میں ڈوبے ہوۓ، بے سکون غیر مطمئن، شراب ،جوا،نشے ایڈز جیسی لعنتون  کا شکار ہیں ۔ آئیے اپنے بچوں کو اسلام جیسے بہترین ،پا کیزہ، عظیم مذہب سے روشناس کروائیےتاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہوں۔اور آپ کے لیۓ صدقہ جاریہ بنیں ورنہ سواۓ پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آۓ گا۔

No comments:

Post a Comment

قرآن پڑھانا واجب ہے

جس دیس کی مائیں

  جس دیس کی مائیں بچوں کو مغرب کے سبق سکھاتی ہوں جس دیس کی مائیں بچوں کو گانوں کی دُھن پہ سلاتی ہوں جس دیس کی مائیں بچیوں کے فحاشی...